جاپان کی عدالت نے 46 سال تک موت کی سزا کے انتظار میں کال کوٹھری گزارنے والے بے گناہ شخص کو ریکارڈ معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 89 سالہIwao Hakamad کو 1968 میں ایک مبینہ قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، جس کے بعد انہوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ جیل کی تنہائی میں گزارا۔ 2024 میں نئی عدالتی سماعت کے بعد انہیں بے گناہ قرار دے دیا گیا اور اب انہیں 14 لاکھ ڈالر (تقریباً 4 ارب پاکستانی روپے) سے زائد رقم تلافی کے طور پر دی جائے گی۔
یہ واقعہ 1968 میں شروع ہوا جب ہاکامادا پر ان کے آجر اور اس کے خاندان کے قتل کا الزام لگایا گیا۔ ثبوتوں کے فقدان اور متنازع تفتیشی طریقہ کار کے باوجود انہیں 1970 میں سزائے موت سنائی گئی۔ گزشتہ 54 سالوں میں یہ مقدمہ جاپانی عدالتی تاریخ کا سب سے طویل عرصے تک چلنے والا کیس بن گیا۔ 2014 میں نئے ثبوتوں کی بنیاد پر ہاکامادا کو عارضی طور پر رہا کیا گیا تھا، لیکن ان کی مکمل بریت کا فیصلہ مزید دس سال بعد 2024 میں آیا۔
عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ ہاکامادا کو قید کے ہر دن کے عوض 12,500 ین (تقریباً 12,000 پاکستانی روپے) دیے جائیں گے، جس کا مجموعی تخمینہ 217 ملین ین سے زیادہ بنتا ہے۔ یہ جاپان کی تاریخ میں غلط طریقے سے قید کیے گئے شخص کو دیا جانے والا سب سے بڑا معاوضہ ہے۔ ہاکامادا کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ یہ رقم ان کی طویل صعوبتوں کا مکمل ازالہ تو نہیں کر سکتی، لیکن یہ ایک اہم علامتی اقدام ضرور ہے۔
ہاکامادا کا کیس جاپانی عدالتی نظام میں اصلاحات کی اہم دلیل بن چکا ہے۔ تفتیش کاروں پر الزام ہے کہ انہوں نے ثبوتوں میں ردوبدل کیا اور جبری اعتراف کرایا۔ عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ مقدمے کے دوران ہاکامادا کے خون کے دھبوں والے کپڑوں کو بدلا گیا تھا۔ ان کی 92 سالہ بہن ہیڈیکو نے دہائیوں تک انصاف کی جنگ لڑی اور بالآخر ان کی بے گناہی ثابت ہوئی۔
یہ واقعہ نہ صرف جاپان بلکہ پوری دنیا کے عدالتی نظاموں کے لیے ایک سبق ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ غلط فیصلوں کی قیمت کتنی بھاری ہو سکتی ہے۔ ہاکامادا نے اپنی جوانی اور درمیانی عمر کی بہترین سالیں سلاخوں کے پیچھے گزار دیں، اور اب وہ زندگی کے آخری حصے میں انصاف کی ایک جھلک دیکھ پا رہے ہیں۔